میری کہانی. بلاگر نجمہ مسعود
راستہ بمشکل دس سے پندرہ منٹ کا ھے عام طور پر میں اپنے دن کے معمولات کو سوچتے ھوے جاتی ھوں کہ آج جاکر کیا کیا کر نا ھے مگر آگے رکشہ ڈرائیور اور کسی سواری کے درمیان ھو نے والی گفتگو کی آواز بھی کانوں میں پڑ تی رھتی ھے آج بھی حسب معمول میں جس رکشے پہ بیٹھی اس کی اگلی سیٹ پر ایک شخص ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا
جی گزارا اچھا ھو جاتا ھے میری سماعت سے جب یہ جملہ ٹکرایا تو میں نے نہ چاھتے ھوے بھی ان کی گفتگو سننی شروع کر دی
وہ بتا رھا تھا میں کے ایس بی فیکٹری میں ملا زم تھا صبح سات بجے سے شام چار بجے تک کام کرتا تھا فاؤنڈری میں میری ڈیوٹی تھی کام بھی مشکل تھا اور تنخواہ صرف پندرہ ھزار روپے ماہانہ
تین بچیاں اور ایک بچہ ھے سارے ھی سکول جانے والے ھیں اس مہنگائی کے دور میں سارے اخراجات تنخواہ میں پورے کر نا بہت ھی مشکل ھے
میری بیوی بھی محلے کی عورتوں کے کپڑے سی کہ کچھ نہ کچھ کما لیتی ھے. میرے اہک دوست نے رکشہ لیا تھا اس نے اپنے رکشے کی قسط جمع کروانی تھی مجھے بھی ساتھ لے گیا باتوں باتوں میں ڈیلر نے مجھے کہا کہ آپ کا بھی ارادہ ھوا تو بتانا بہت اچھا رکشہ دوں گا میں نے ہنس کر کہا کہ میں نے رکشہ کیا کرنا. مگرگھر پہنچنے سے پہلے میں رکشہ خریدنے کا فیصلہ کر چکا تھا ایک لاکھ نقد اور پچانوے ہزار کی قسط کر کے میں
رکشے کا مالک بن گیا شروع شروع میں تو صرف شام کو ڈیوٹی سے واپس آ کر ہی رکشہ باہر لے کر جاتا تھا باقاعدہ لکھ کر خرچ اور آمدن کا حساب کر تا رھا مجھے اندازہ ھوا کہ اس کام میں پرائ نوکری سے زیادہ آمدنی ھے اور وقت کی بھی کوئ پابندی نہیں اب میں صبح نماز پڑھ کر
نکلتا ھوں سبزی منڈی جانے والے مجھے لے جاتے ھیں واپس آ کر دو پھیرےسکول کے بچوں کو لے کر جاتا ھوں اپنے بچوں کو بھی اسی پر چھوڑ کر آتا ھوں بس آٹھ بجے آکر ناشتہ کر کے آرام کرتا ھوں اور دس بجے پھر نکل پڑتا ھوں بس یار جو مزا اپنے کام میں ھے وہ نوکری میں کہاں دس سے بارہ گھنٹے کی محنت کے بعد جو پیسے ملتے تھے آج اس سے ذیادہ کما رھا ھوں وہ مسلسل بولے جا رھا تھااور میں سوچ رھی تھی کہ واقعی جتنی محنت ھم دوسروں کے کام کے لیے کرتے ھیں اگر اپنے زاتی حیثیت میں شروع کردہ کام میں کریں تو ترقی اور خوشحالی ھمارا معیار زندگی بدل کر رکھ دے.
تبصرے