اشاعتیں

مئی 29, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

رنگاں دی رانی پنجابی شاعری

تصویر
 میں رنگاں دی رانی آں  میرے اندر سارے رنگ میری ھر اک ساہ وچ راگ میں ازلاں توں پئی گانی آں شہد تے مشری نوں شرماوے میری بولی مٹھڑی بولی اے کڈی نمی نمی  ھولی اے جو سنڑ لیوے راہ بھل جاوے ھوا دا جھونکا میری چال بدلاں ورگے میرے  وال پیر دھراں تے ست بسم اللہ کردے پھردے سارے نال نجمہ مسعود

سرحداں نوں نہئی من دے۔ پنجابی نظم۔ نجمہ مسعود

تصویر
سرحداں نوں نہیں َمنّدے پھول  نالےخوشبووی سرحداں نوں نہیں مَنّدے ھوا دا تےفلسفہ اے جھونکےسرحداں نوں نہیی مَنّدے فطرت دیفراغی ویکھ، بنیا  اےجگ سب لئ اے عالم دے اےنظارے سرحداں نوں نہیں  مَنّدے  دکھ تے سکھ دوویں ھی اس حیاتی دے زیور جے ھنجو تےھاسے وی سرحداں نوں نہیں مَندّے عشق منہ زورگھوڑا جےچلپئے تےرکدا نہئیں عاشق سارےکملےنےسرحداں نوں نہئیں مَنّدے  بنےسُرتےسازسارےاس فطرت دی ھم آہنگی لئی  موسیقی دےاےدھارے سرحداں نوں نہئیں مَنّدے پاگل جوانی وانگ مست لہراں بل کھاؤندیاں لہراندیاں دریاواں دے اے دھارے سرحداں نوں نہئیں مَنّدے نجمہ مسعود🌎

ھمارا بچپن۔

تصویر
         کیا آپ کو سٹاپو کھیلنا آتا ہے یسو پنجو آتا ہے چڑی اڈی کاں اڈا کبھی کھیلا ہے گرم پٹھو کھیلی ہو کبھی بادشاہ بادشاہ کا وزیر کون، جانتے ہو رسی پھلانگی ہے کبھی کبھی گلی ڈنڈا کھیلے ہو بنٹے (کنچے) کھیلنا آتا ہے نیلی پری آنا، جانتے ہو کوکلا چھپاکی جمعرات آئی اے، کبھی کی ہے  باندر کِلا سے واقف ہو بارش کے موسم میں ریت کے ڈھیر سے کبھی گھسیٹتے نیچے آئے ہو کبھی ٹیوب ویل میں ڈبکیاں لگائی ہیں کبھی درخت پر چڑھ کر پکے پکے امرود ڈھونڈھے ہیں کبھی جو درخت کے ساتھ پینگ (جھولا) جھلائی ہے کبھی پنکھے کے سامنے کھڑے ہو کر اااااااااااااااا کیا یے کبھی رضائیوں کی تہہ پر سب سے اوپر چڑھ کر بیٹھ جانا اور خود کو بادشاہ سمجھنا، یہ لطف محسوس کیا ہو کبھی سائیکل کے ٹائر کو اپنی کمر کے گرد گزار کر اسے گول گول گھمایا ہے کبھی برساتی موسم میں اپنے راہ چلتے ایک مینڈک کو پکڑ کر کسی کی قمیص میں ڈالا ہے کبھی بابا دولے شاہ کے چوہوں سے ڈر کر اپنے گھر کے سب سے پچھلے کمرے کی پیٹیوں کے پیچھے یا نیچے چھپے ہو کبھی ٹھپے لگوانے والیوں کو آٹا دے کر ٹھپے لگوائے ہیں کبھی ...

ایک سکول ٹیچر کا خط نجمہ مسعود

تصویر
مائی ڈئیر تاج الدین، سلامِ محٌبت، تمھارا اِملے کی غلطیوں سے بھرپور مراسلہ مِلا، جسے تم بدقسمتی سے "محٌبت نامہ" کہتے ہو ۔ کوئی مسٌرت نہیں ہوئی ۔ یہ خط بھی تمھارا پچھلے خطوط کی طرح بےترتیب اور بےڈھنگا تھا۔ اگر خود صحیح نہیں لکھ سکتے تو کسی سے لِکھوا لیا کرو۔ خط سے آدھی ملاقات ہوتی ہے اور تم سے یہ آدھی ملاقات بھی اِس قدر دردناک ہوتی ہے کہ بس! اور ہاں.... یہ جو تم نے میری شان میں قصیدہ لِکھا ہے ، یہ دراصل قصیدہ نہیں بلکہ ایک فلمی گانا ہے اور تمھارے شاید عِلم میں نہیں کہ فِلم میں یہ گانا ھیرو اپنی ماں کے لئے گاتا ہے ۔ اور سُنو! پان کم کھایا کرو۔  خط میں جگہ جگہ پان کے دھبے صاف نظر آتے ھیں۔ اگر پان نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم خط لکھتے وقت توہاتھ دھوکے بیٹھا کرو۔ اور یہ جو تم نے ملاقات کی خواھِش کا اظِہار انتہائی اِحمقانہ انداز میں کیا ھے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی یتیم بچہ اپنی ظالِم سوتیلی ماں سے ٹوفی کی فرمائش کر رھا ھو، اس یقین کہ ساتھ کہ وہ اِسے نہیں دےگی۔ ایک بات تم سے اور کہنی تھی کہ کم از کم اپنا نام تو صحیح لکھا کرو۔ یہ "تاجو" کیا ھوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی ق...