نسلی تعصب


   
















ابتدائے آفرینش سے ھی انسان کا  اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے  کا گھمنڈ چلتا آرھا ھے  اور  یہ نسلی برتری کہلائ  دنیا میں آنے والی تمام  آسمانی کتب اور سچےمزاھب اس کی نفی کرتے رھےھیں   مگر ھر مزھب نے انسان کو اچھے اعمال سے روکنے والی قوت شیطان یا ابلیس کا بھی ذکر ضرور کیا ھے کہ وہ ان تعلیمات پر عمل درآمد کی راہ میں اپنا پورا زور لگائے گا  ایسے میں اس کی نگاہ ھر جگہ اور انسان کا احاطہ کیئے ھوئے ھوتی ھے کہاں وہ  سکون میں ھے اور کس جگہ اچھائی کا پرچار ھو
ھو رھا ھےاسلام میں تو نسلی امتیاز کی کوئی جگہ نہیں اسی طرح ےامریکہ بھر پر ھے مگر  نسلی امتیاز کے لحاظ سے نمبر ون ھے بظاہر ھر طرح کی خوشحالی  نوکریوں کی ریل  پیل جمہوریت کادوردورہ مگر اس ملک کے سینے پر سیاہ داغ لگانے کے  لئیے نسلی امتیاز ھی کافی ھے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول ھی نہیں۔ اور نہ ھی اس مسئلے   کو کبھی سیریس لیا گیا ھے دنیا کے اور بھی کئی ممالک اس  تعصبی برائی کا شکار ھیں  اور واقعات رونما ھوتے رھتے ھیں مگر حکومتی اھلکار  اس معاملے میں محتاط رھنے کی کوشش کرتے ھیں اور اپنا دامن صاف رکھنے کو اھمیت دیتے ھیں
میں اپنی چشم تصور میں دیکھتی ھوں کہ شیطان اپنے چیلے کے ساتھ  ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں مارکیٹ سے گزر رھا ھے چیلا کہتا ھے اتنا سکون کیوں شیطان سن کر سر کھجاتے ھوئے گویا ھوتا ھے پھر ھو جائے ھلچل مگر کیسے چیلا سوچتے ھوئے کہتا ھے چلو چلو جلدی چلو یہ سیاہ فام کچھ لینے کے لئیے سامنے فلسطینی محمود ابو میالہ کی شاپ میں داخل ھو رھا ھےلگتا ھے آج وہ شاپ پہ نہیں ھے دونوں اگلے ھی لمحےجارج فلا ئیڈ نامی سیاہ فام شحص کے پیچھے کھڑے ھوتے ھیں سگریٹ کا پیکٹ اٹھا کر وہ تیزی سے واپس کاؤنٹر پر آتا ھے اور کاؤنٹر پر کھڑا نوجوان اسے بیس ڈالر کی سلپ تھماتا ھے فلا ئیڈ جلدی سے بیس پونڈ  ادا کر کے جانے لگتا ھے اور  وصولی کرنے والا نوٹ  دراز کھول کر اس میں ڈالنے لگتا ھے شیطان اس کے دل میں فوراً وسوسہ ڈالتا ھے کہ یہ نوٹ جو تم نے وصول کیا جعلی ھے اور اس کا دل سیاہ فارم کی نفرت سے بھر جاتا ھے اور کہتا ھے رکو رکو یہ نوٹ مشکوک ھے شاید یہ جعلی ھے نہیں نہیں یہ جعلی ھر گز نہیں یہ اصلی نوٹ ھے مگر فلائیڈ رکے بغیر ھے اسے جواب دیتا ھےگارڈ اسے روک لیتا ھے اور کاؤنٹر پر کھڑا شخص پولیس کو فون کرتا ھے اگلے ھی چند منٹو ں میں پولیس کے چار اھل کار شاپ میں پہنچ جاتے ھیں اور فلویڈا  کو ہتھکڑی لگا کر گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کرتے ھیں مزاحمت پر ایک اھل کار جارج
 فلا ئیڈ کو زمین پر گرا کر اس کی گردن پر اپنا پاؤں پورے زور سے رکھ دیتا ھی چیلا اس منظر سے لطف انداز ھوتے ھوئے کہتا ھے یہ ھے آپ کی طاقت شیطان جواب دیتا ھے ابھی آگے کا منظر باقی ھے رکو تو سہی فلا ئیڈ  کی آواز آرھی ھے میری سانس رک رھی ھے مجھے چھوڑو میں سانس نہیں لے پا رھا میں سانس لینا چاھتا ھوں اردگرد کے لوگ آہستہ آھستہ جمع ھونا شروع ھو جاتے ھیں اس کی آواز سن کر شور کرتے ھیں کہ اسی کی  سانس رک رھی ھے اسے اوپر اٹھاؤ مگر دوسرا پولیس مین گن لے کر اس کے پاس کھڑا ھوتا ھے اور لوگوں کو اس سے دور رکھتا ھے وہ اسے کوئی حقیر محلوق سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ھے فلا ئیڈ کی سانسیں مدھم پڑ جاتی ھیں اس کی آواز اوراحتجاج ایکدم ٹھنڈا پڑ جاتا تقریباً نو منٹ کے دباؤ نے اس کی جان لے لی تماشا تو اب ھو گا اس کے خاندان کے لوگ اس کی موت کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور اس آگ میں پورا ملک جلے گا چلو ھمارا کام ختم ھواوہ پلک جھپکتے ھی وھاں سے کھسک جاتے ھیں اگلے ھی لمحے فلا ئیڈ کی موت کی خبر اور وڈیو سوشل میڈیا پر چل رھی ھوتی ھے سفید فام پولیس نے نسلی تعصب کے سبب ایک سیاہ فام امریکی کی جان لے لی اس سٹیٹ میں تمام لوگ اس کے حق میں نعرے لگاتے ھوئے نکل آتے نہ صرف اس کی دوکان کو لوٹتے ھیں بلکہ کئ دوسرے مال بھی لوٹنے کی خبریں آنے لگتی ھیں یہ مظاہرے جنگل کی آگ کی طرح ملک  کے طول وعرض میں پھیل جاتے ھیں نیویارک میں وائیٹ ھاؤس کا گھراؤ حکومت پر ایسا خوف طاری کرتا ھے کہ امریکی صدر کو بنکر میں چھپ کر رات گزارنی پڑتی ھے کرفیو لگا کر عوام کے غصے اور احتجاج پر قابو پانے کے لئیے پوری پولیس فورس کو آزادانہ تشدد کی اجازت دی جاتی ھے مگر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے مقصد میں ڈٹا  نظر آتا ھےھزاروں مرد وزن ہاتھوں میں  انصاف برائے فلا ئیڈ اور نسلی 
امتیاز کے خاتمے کے پلے کارڈ ھاتھوں میں لئیے ریلیاں نکالتے ھیں محمود کی شاپ کے سامنے مقتول کی تصاویر آویزاں نظر آرھی ھیں اور لوگ اس کو خراج عقیدت اور یکجہتی کے لئیے پھولوں کے گلدستے اور کارڈ رکھ رھے ھیں محمود ابو میالہ کی پولیس اسٹیشن حاضری پر وہ اس امر پر سخت ندامت اور افسوس کا اظہار کرتے ھوئے یہ کہتا ھے کہ اگر وہ اس موقع پر شاپ میں موجود ھوتا تو آج فلا ئیڈ ھمارے درمیان ھوتا اور کوئی ناخوشگوار واقع کبھی بھی پیش نہ آتا مگر اس کے ملازم نے نا تجربہ کاری کے باعث معاملہ خود ھی حل کرنے کے بجائے پولیس کو بلا لیا  جس کی وجہ سے اتنا بڑا سانحہ  پیش آیا وہ فلائیڈ کے خاندان کے ساتھ ھر طرح کا مالی تعاون کے لئیے تیار دکھائی دیتا ھے بلکہ اس نے جارج  فلا ئیڈ کے جنازے پر ھونے والے اخراجات کو اٹھانے کا بھی اعلان کر دیا ھے آج اتوار ھے اور امریکی ریاست ٹیکساس  کے شہر ھوسٹن    جو جارج کا  آبائی علاقہ ھے اسمیں جنازے کی تیاری ھو چکی ھےتقریباًپانچ سو سے زائد افراد جمع ھییں تھوڑی دیر تک اس کی آخری رسومات ادا کر دی جائیں گی وقت کے ساتھ ساتھ یہ مظاہرے بھی ختم ھو جائیں گے مگر امریکہ خکومت جب اپنی اکانومی تباہی کا حساب لگائے گی اور اس کی وجہ صرف بیس ڈالر کی خاطر ایک سفید فارم پولیس آفیسر کے ہاھوں ایک سیاہ فام امریکی کی موت کے بارے میں حکومت کے ایوانوں میں بات ھوگی تو نسلی امتیاز کے خاتمے کے لئیے قوانین بنانے کی بات ھوگی یا نہیں اور پولیس گردی کو  ختم کرنے  کے لئیے پولیس کے قوانین میں ترمیم کے بارے میں سوالات اٹھیں گے یا نہیں۔یہ خبریں گردش کر رھی ھیں کہ منی ایلپس کی ضلع کونسل کے اراکین پولیس کے محکمے کا یہاں سے مکمل خاتمہ چاہتے ھیں  یہ وقتی جوش اور جز باتی فیصلہ ھے یا دو ٹوک حقیقی تبدیلی کی طرف پہلا قدم بحرحال امریکہ کی جمہوریت کی مظبوطی کے لئیے یہ پولیس  اصلاحات اوراقانون  میں  تبدیلیاں ناگزیر ھیں  ظلم کی انتہا تو یہ ھے
سفاک  پولیس اھل کار ڈیریک شوون مرکزی مجرم اور تین مزید اھلکاروں  کو برطرف کر دیا گیا ہے اور ان پر سیکنڈ ڈگری کے قتل کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ وہ پیر کے روز عدالت میں پیش ہوں گے۔      

تبصرے