زاھدی کے نصیب.. بلاگر نجمہ مسعود





وہ جب بھی ھمارے گھر آتی ھے اسے دیکھ کر میرا دل اداس سا ھو جاتا ہے اور میں سوچتی ھوں خدا بیٹیاں دے تو ان کو اچھے نصیب بھی دے ھر دفعہ اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب اور قابل رحم ھوتی ھےزاھدی کوئی اور نہیں بلکہ میری مرحومہ پھو پھی کی اکلوتی بیٹی ھے بچپن میں ہی ماں دنیا سے رخصت ہو گئی سو تیلی ماں نے جیسے باپ کو بھی سوتیلا کر دیا زیادہ وقت بزرگ نانی نے اپنے پاس شہزادیوں کی طرح رکھا پندرہ برس بعدپھوپھی کی محبت جاگی جو کہ انگلینڈ سے پاکستان آئیں تھیں اور اپنےبیٹے کے لیے نہ صرف اسے پسند کر لیا بلکہ نکاح بھی کر کے واپس چلی گئیں اور دو ماہ کے اندر اسے بلا بھی لیا سب خاندان والے اس کی قسمت کی مثالیں دیتے تھے مگر وھاں پہنچتے ہی ذاھدی کو سمجھ آگی کہ پھو پھی کی محبت کتنی سچی ھے وھاں کی زندگی وھاں کے روز شب اور وھاں کا کلچر اس کے ملک کے حالات سے کتنے مختلف ھیں اور اس کا جیون ساتھی جس کے سپنے اس نے پچھلے دو ماہ میں دیکھے تھے اس نے اسے دلہن تو ماں لیا مگرمستقل بیوی ماننے سے صاف انکار کر دیا وہ بھلا ایک مشرقی سیدھی سادہ لڑکی کےساتھ پوری ذندگی کیسے گزار سکتا تھا.  پہلے ہفتے میں ھی اسے یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ پورے خاندان کی خدمت کرنے کے لیے اسے سات سمندر پار سے لایا گیا ھے دیور نندوں ساس سسر اور خا وند کے کا م کر کر کے اسے صبح سے شام ھونے کا پتہ بھی نہ چلتا آہستہ آہستہ اس پر یہ راز بھی فاش ھونے لگا کہ اس کا شوہر جو کچھ کما تا ھے نشے اور عیاشی میں لٹا دیتا ھے ماں باپ کی کوئی بھی مالی مدد نہیں کرتا جس کی وجہ سے والدین اس سے نالاں رھتے ھیں بعض اوقات نشے کی حالت میں گھر آ کرمار پیٹ بھی کر نے لگتا ساس کی کنجوس طبیعت اور نندوں اور دیوروں کے نخرے اٹھانے کے باوجود وہ ان کے دلوں میں جگہ نہ بنا سکی خاوند کی بے اعتنائی اور کام کے بوجھ نے اسےنہایت لاغر اور کمزور کر دیا تھا اب اسے ہر وقت بخار رھنے لگ گیا تھا کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ وہ کام کاج کے قابل نہ رھی رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب اس کے کان میں شور کی آواز پڑ ی اور وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی اب تم دو ھو نہ تم اس کے اخراجات  اٹھاتے ھو اور نہ ھی کوئی ھماری کوئی مالی مدد کرتے ھو اور اوپر سے روذ نشہ کر کےگھر والوں کو پریشان کر تے ھو اس کے اخراجات میں کیوں اٹھاؤں آپ اٹھا کر لائی ھیں اسے پاکستان سے اب خود ھی سنبھالیں اس مصیبت کو اسے مصیبت کہ رھے ھو وہ تمھاری بیوی ھے تمھارا اس سے نکاح ھوا ھے نکاح مائی فٹ میں اسے ابھی طلاق دیتا ہوں اور اگلے ھفتے وہ اپنی سوتیلی ماں کے طعنے سننے کے لیے اپنے گھر واپس آچکی تھی اس کی پھوپھی اسے بلا جواز ایک دن بھی رکھنے کو تیار نہ تھیں ذاھدی کی ماں ذیادہ دن تک اسے رکھنے کے حق میں نہ تھی چھ ماہ کے اندر اندر اس کے باپ نے اہک رشتہ اس کے لیے ڈھونڈ ھی لیا لڑ کا اسلام آباد کی ایک مل میں ملازمت کر تا تھا شادی کے ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ایک چاند سا بیٹا دیا اس کی ساس بھی اس کے ساتھ بہت اچھی تھی مگر جب اسے پتہ چلا کہ اس کےخاوند کا اٹھنا بیٹھنا اوباش لڑکوں میں ھے تو اس نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر بگڑے ہوئے کو کون سمجھاے رفتہ رفتہ معاملات مذید بگڑ نے لگےاور وہ  بری صحبت کی وجہ سے نشے کا عادی ھو گیا مل سے فارغ کر دیا گیا فاقوں تک نوبت پہنچ گئی ماں باپ نے کبھی مڑ کر حال بھی نہ پوچھا زندہ بھی ھو یا مر گئی ھو ادھر ایک اور بچے کی آمد کی تیاری تھی کسی پڑوسن کی وجہ سے اسے ایک گھر میں کام کرنے کو مل گیا اسی دوران دوسرے بیٹے کی پیدائش ھو گئی مگر اس کا خاوند نشہ پورا کرنے کے لئیے نہ صرف اسے مارتا پیٹتا بلکہ اس کی تنخواہ بھی چھین کر لے جاتا آخر اسکی قوت برداشت جواب دینے لگی اور وہ اپنے باپ کے گھر اس شرط پر واپس آگئ کہ وہ کسی پر بوجھ نہیں بنے گی کچھ عرصہ ادھر ادھر کام کرتی رھی مگر خاندان والوں کو اس کا کام کرنا اچھا نہ لگا اس کے ماموں کی کوششوں سے ایک رشتہ مل گیا لڑکے کی دوسری شادی تھی مگر بچے نہ تھے اپنا گھر تھا اور رکشہ بھی اپنا ھی تھا شادی طے ھوئ تو بچوں کی دادی نے بڑا پوتا واپس لے لیا اور چھوٹا اسے دے دیا اسے لگا کہ شاید میرے صبر کا پھل مجھے مل گیا ھے وہ پچھلی بھیانک اور تلخ یادوں کو بھلا کر اہک نئی زندگی گزار رھی تھی اپنے نئے گھر کو سنوارتی اور شوھر کی خدمت کرتی سارا خاندان اس کی پرسکون زندگی سے خوش تھا دو سال بعد خدانے پھر اس کی گود ہری کر دی اور اب وہ تین بیٹوں کی ماں بن چکی تھی ایک دن اچانک اس کا خاوند جلدی گھر واپس آگیا پتہ چلا کہ اس کا رکشہ سڑک کے کنارے کھڑا تھا گزرتے ھوے ٹرالر کی ٹکر سے با لکل تباہ ھو گیا زریعہ آمدن اچانک ختم ہو گیا ادھار لے کر ٹھیک کرواتا مگر آے دن اس کو ورکشاپ لے کر جا نا پڑ تا کوئی نہ کوئی کام نکل آتا آمدن پہلے کی طرح نہیں رھی تھی اور اخراجات پورے کرنے مشکل ھو گئے تھے اب کی بار جب وہ آئی تو اس کی حالت اتنی خراب تھی کہ اسے پہچاننا مشکل تھا مکمل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہلدی جیسی رنگت اور پھولا ھوا پیٹ اس نے بتایا کہ اس کے پیٹ میں رسولی ھے ڈاکٹر نے آپریشن کروانے کو کہاھے مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ آپریشن کرواسکوں ننھی سی جان اس کا بیٹا اسے دیکھ کر مسکرا رھا تھا اور میں یہ سوچ رھی تھی کہ کب اس لڑکی کی ذندگی کی مصیبتیں اور پریشانیاں ختم ھوں گی اور کب یہ سکون کی ذندگی بسر کرے گی















تبصرے

گمنام نے کہا…
Masha Allah
True story.