ریاست مدینہ۔
۔۔۔۔۔۔۔
مال زکوۃ جب آنپہنچا حاکم وقت کے دربار میں
دفعتاً پیشی ھوئی سب اُعمال کی دفتر سرکار میں
فکر معاش کم ھو تقسیم ھو جائےمال فقرا شہر میں
گویا ھوئے امیر جھلکتی تھی ان کی شان آواز و گفتار میں
ناپید ھے غربت ملک عزیز میں غریب کا نام ونشاں نہیں ھے
چہرے پہ تھا سکون جھک کر دیا جواب ادب سے اھلکار نے
بہا دو مال و زر تیاری میں عسکری قوت بڑھانے میں
لپک دیکھے سارا زمانہ اس جوانمرد فوج کی تلوار میں
رکھے ھیں بیڑے ڈال کئی ممالک کی چراھگاھوں میں
بعد از عسکری اسباب مال پیش کرتے ھیں خدمت سردار میں
بسا دو گھر ان جوانوں کے جو رکھتے خواہش خانہ ھوں
مرادیں پا چکے ھیں سب گھر گھرستی کی ،ھیں حالت سرشار میں
پھر جاؤ سلطنت میں قرض ادا کردو ھر مشہور اور گمنام کا
غربت جڑ ھے قرض داری کی بنا جڑ کیسے بڑھےگا یہ پودا رفتار میں
بغض چھوڑو چلو گردنیں چھڑاؤ یہاں سب غیر مسلم کی
خرچ ھوا مال اس ادائیگی میں خوش ھیں سب اپنے اپنے گھر بارمیں
کھول دو منہ خزانے کےاھل علم کی معاشی آسودگی کے لئیے
یہ علم کے مینار واجب تکریم ھیں جو بازو ھیں اس کار سرکار میں
ھر تمنا آپ کی مقبول ھےحسرت و یاس کسی اکائی میں نہ پائیں گے
عوام کے ھر طبقے میں ھے خوشحالی ،نہ ھوئی کمی خزانے کے انبار میں
مقام شکر ھےحاجت مند نہیں کوئی بشر ،خدا کی اس ریاست میں
ھوگی ضرور باز پرس نہ ھو جائےکوتاھی معاملات سیاست میں۔
کیوں رھے بھوکا کوئی چرند پرند بکھیر دو اناج پہاڑوں اور بیابانوں پر
جناب یہ ھے وہ تصور اسلامی ریاست ،جو ملتا ھے ،تاریخ کے اخبار میں
نجمہ مسعود
تبصرے
زبردست نقشہ کھینچا ھے شاعری میں