(covid19) خوف مرگ غزل. Urdu poetry
۔
یہ جو خوف مرگ ھے ھر طرف بس خانوں میں تو بٹا رھے
یہی روگ ھے عشق جان کا ،تو، زندان میں ھی ڈٹا رھے
یہ جو میل جول اب بجوگ ھے دیئے عشق کے وہ بجھا گیا
گر باعث بقائے جان ھے تو یہ رابطہ ھی کٹا رھے
وہ اتنا تیرا رقیب ھے جو دل کے جتنے قریب ھے
ھے محبتوں کا یہ امتحان کہ نگاھوں سے وہ ھٹا رھے
دکھے رقص موت کا ھر طرف یہ فضا تو غم سے چور ھے
ھو گی زندگی بھی یہیں کہیں چراغ امید کا اب جلا رھے
سب منقطع ھیں راستے اور موت کے ساۓ راہ میں
نہ کٹے ھائے یہ تار دل کیوں یہ دوریوں میں بٹا رھے
خو بدل کے اب تو نسیم سحر جون بھرے باد سموم کا
میں کیسے رھوں اس سے بے خبر حال باغباں کا پتہ رھے
ٹوٹا عشق پہ یہ قہر ھے کہ ملنا بھی اب تو زھر ھے
ھجر عشق کی معراج ھے یہ نعرہ لبوں پہ سجا رے
تیرے میرے دل میں سرور تھا ھمیں اس پہ کتنا غرور تھا
سوکھے عشق کا نہ یہ چمن ھر حال میں یہ ھرا رھے
جھڑی آنسؤوں کی ھے لگی ھوئی اور دعاؤں کے ھیں سلسلے
دھرتی کے سینے پہ مدتوں یہ ندامت کا منظر چھپا رھے
نجمہ مسعود
تبصرے