Eid..... Kia yeeid hai
عید مسلمانوں کی ذندگی میں سب سے بڑا تہوار ہے. سب سے بری خوشی ہے یہ ایک ایسا. مذہبی تہوار ہے جو رمضان کے مہینے کو ختم کرنے کے بعد خوشی اور مسرت کے طور پر منایا جاتا ہے یہ شکرانے کا دن ہے اور ہر مسلمان یہ دن نہایت جوش و خروش سے منا تا ہے. امیر اور غریب سب اپنی بساط کے مطابق اس دن کو منانے کی تیاریاں. رمضان میں ھی شروع کر دیتا ہے. والدین اپنے بچوں کے لئے اپنی مالی حالت سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں اور اس دن اچھے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں ایسا ہی ایک پیارا سا دن تھا جب چھوٹے اوربڑے بچے خوشی خوشی اپنے والدین کے ساتھ بازارگیے دلوں میں ننھی ننھی خواہشات سجائے کہ عید کے اچھے اچھے کپڑے اور جوتے لیںنگےکچھ. بچوں نےاپنی مرضی اور خواہش کے مطابق خریداری کی ھو گی ماں باپ سے ضدکرکے کھلونے اور مٹھائیاں لی ھوں گی مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ انکے نصیب میں یہ خوشیاں ھیں بھی کے نہیں طوری بازار میں ہر طرف امن و سکون تھا لوگ خوشی خوشی افطار اور عید کے لئے خریداری کر رہے تھے بازار میں خریداروں کا رش تھا
مگر اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی اور پل بھر میں بازار کا منظر قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرنے لگا ھرطرف چیخ و پکار کی آواز یں انے لگیں دور کھڑے لوگ اور تمام لوگ مدد کے لیۓ مارکیٹ کی طرف دوڑے اور لوگوں کی مدد کرنے لگے مگر اسی اثنا میں ایک اور زوردار دھماکا ہوا
جو پہلے دھماکے سے بھی زیادہ خو فناک تھا اور اس بار دشمن کا منصوبہ مکمل طور پر کامیاب ھو چکا تھا ھر طرف لاشوں آور ذخمیوں کےڈھیر ھر طرف آہ وبکا بچانے کے لیے آ نے والے بھی اس مصیبت میں مبتلا ہو گئے تھے ظالموں کے ظلم کا شکار ہو گئے وحشت آور بر بریت کے اس کھیل میں پچاس سے زائد افراد. شہید. اور ایک سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے. اس خوشیوں بھری شام میں کتنے گھر. اجڑ گئے کتنے ارمانوں کا خوں ھوا کتنے بچے یتیم. ھوے اور کتنی ماؤں کی گو دیں ویران ھو گین یہ وہ دن تو نہیں تھا جسکا انھوں نے سارا سال انتظار کیا تھا تقدیر نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ چند دن بعد ایک اور حادثہ ھماری خوشیوں پر ڈاکہ ڈالنے آپنہچا آئل ٹینکر کیا گرا جیسے. ملک الموت نے کوئی جال بچھا یا ہو اس شکاری کی کی طرح جس نے
محصوم پرندوں کو اپنے جال میں پھنسا نے کے لئے بہت سے دانے جال کے اندر
ڈال کر رکھے ھوتے ھیں بظاہر تو یہ چالیس ھزار لیٹر پٹرول تھا مگر دو سو سے زائد افراد کی موت اور سینکڑوں افراد کی بسی اور لاچارگی کا بہانہ بن گیا اس سانحے نے تو رہی سہی
کسر بھی نکال دی ل بظاہر تو یہ سانحہ بہاولپور میں ھوا ھہ مگر یوں لگتا ہے کہ یہ ھم سب کے گھروں کا واقعہ ہے پے در پے حاد ثات نے پوری قوم کے دل رنج و غم سے بھر دیے ہیں خدا کسی قوم پر اتنا کڑ ا وقت نہ ڈالے کہ برداشت کر نا مشکل ھو جائے عید کی خوشیاں ان غم کے پہاڑوں میں جیسے دب سی گئی ھوں دکھی اداس آنسوؤں اورسسکیو ں کے درمیان گھٹی گھٹی آوازوں
میں آتی عید مبارک کی صد آئیں پورے ملک میں سنائی دیے رہی تھیں
نجمہ. مسعود......... بلا گر
Najmamasood. blogspot freelancer writer
تبصرے