میرے دامن سے لپٹی ہوئی یا دیں.

میرے دامن سے لپٹی ہوئی یاد یں




یادیں اچھی ھوں یا بری ھمیشہ ساتھ ہی رہتی ہیں ھاں شاید وقت کی گرد
میں دھندلا جاتی ھیں مگر دماغ کی سلیٹ سے کبھی بھی مٹتی نہیں جب دل چاہا آنکھیں بند کر لیں اوریادوں کی دنیا کا غوطہ لگا لیا ھو سٹل کی زندگی کی یادیں تو اتنی سہا نی اور اچھی ھو تی ہیں کہ وہاں کا گزرا ھوا ایک ایک لمحہ فر فر یاد ھو تا ھے کالج اف ایجوکیشن لاہور کی یادیں میری ذندگی کا حسین ترین دور اور یہ یادیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں وہ بھی کیا دن تھے جب ھم جن تھے.کالج میں
پورے پنجاب سے آئی ہوئی لڑکیاں الگ الگ لب و لہجے کے ساتھ الگ الگ مزاج اور عادات کے ساتھ. کالج میں بہت بڑے بڑے دو ھو سٹل تھے ایک نیو ھو سٹل اور دوسرا اولڈ ھو سٹل. دونوں کے کلچرل الگ الگ تھے. راولپنڈی. اسلام آباد اور اٹک سے تعلق رکھنے والی طالبات نیو ھو سٹل میں اوربا قی تیس اضلاع سے تعلق رکھنے والی طالبات اولڈ ھو سٹل میں مقیم تھیں. مگرھم نیو
ھوسٹل والوں کی کیا شان تھی.


بارہ فروری 1985 کالج کا پہلا دن سارا دن تعارف میں ہی گزر گیا جلد ھی بےتکلفی ھؤی اور اجنبیت کی دیواریں ختم ھوسٹل میں میری روم میٹ شاہدہ جوکہ راولپنڈی سے آئ ھؤی تھی بہت سنجیدہ اور ظاہر ی وضع قطع سے اپنی عمر سے زیادہ بڑی لگتی تھی پہلے دن ھی مین نے اس کو آپا کا ایسا ٹائٹل دیا کہ آخری دن تک وہ پورےھوسٹل کی آپا ہی رہیں. انیس فاطمہ مونا. فا خرہ    اور شافعہ(گجرات) ھماراگروپ جلد ھی وھاں کا مشہور گروپ بن چکا تھا شروع شروع میں تو یہ   جگہ جیل سے کم نہیں لگتی تھی
غضبناک آنکھوں اور خوفناک آواز والی وارڈن کی ھر طرف گو نجتی ھوئ
آواز سے بچنے کے لئے برآمد وں میں ھولے ھولے چلتے تاکہ ھیل  کا شور ان تک نہ جائے ان کی آواز سن کر روح فنا ہو جاتی تھی وھاں کا کھا ناجو کہ ا تنا برا نہیں تھا مگر ھم لوگوں کو کبھی بھی پسند نہیں آتا تھا شاید ھم لا ڈ پیار سے بگڑ ے ھؤے تھے ھر کھانے میں نقص نکالنے اوربعض اوقات بھوک لگنے پر رات بارہ ایک بجے اٹھ کر وھی کھا لیتے. سب سے برا سالن انڈے اور آلو کا سالن.ھو تا تھا کئی بار انتطا میہ سے مینو تبدیل کرنے کا کہا مگر وارڈن صا حبہ ایسا نہ ہو نے دیتں آخر میں ھم نے وارڈن کو سبق سکھانے کے لئے ایک پلا ن تیار کیا کہ اب جس دن بھی انڈے آلو کا سالن پکے گا بجائے کھا نے کے انڈےسارے جمح کر لینے ھیں یہ نہایت خفیہ پلان تھا اور صرف
ھمارے گروپ کے ارکان تک محدود تھا پھر کیا تھا دو درجن ابلے ہوئے انڈے ھمارے پاس تھے اور انہیں بڑی محنت سے چھیلا ان کے اوپر مارکر سے وارڈن کے خلاف نعرے لکھے اور بڑی سی ڈوری میں پرو کر رات کے پچھلے پہر خاموشی سے وارڈن صاحبہ کے کمرے کے دروازے پر لٹکا آئے اس دوران دل کی دھڑکن آخری سٹیج پر تھی اس سے پہلے کہ دل اچھل کر باہر آجا تا ہم نے
یہ کام ختم کر لیا تھا اور باقی را ت نتائج کی فکر میں گزر گئی صبح ناشتے کی ٹیبل پر پہنچنے سے پہلے ہی ھر طرف انڈوں کے ھار کی خبرگر م تھی.
تھوڑی ھی دیر میں وارڈ ن صاحبہ آنکھوں سے شرارے برساتی اور منہ سے جھاگ اڑاتی آنپہنچی کون ھے یہ کس نے کیا ہے شرافت سے سامنے آ جاؤ. وہ وہ خرافات سنائیں کہ خدا کی پناہ آخر میں تھک ھار کے کہنے لگیں کہ میں نے آپ لوگوں کی لکھائی پہچان لی ہے کل تک وہ لوگ کالج اور ھو سٹل سے فا رغ
کر دیے جائیں گے. انڈے آلو پھر بھی پکتے رھے مگر ھما ری پہلی شرارت کامیاب ہو گئ کیوں کہ ھم پر کسی کو بھی شک نہیں ھوا.

نجمہ مسعود بلاگر
najmamasood. Blogspot. Com










تبصرے