اشاعتیں
جگ سرمایہ داراں دا۔ مولوی عارف پنجابی شاعری
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
*جگ سرمایے داراں دا اِک صدی نُوں چاڑھ تَنگھاڑے ساگر پار کرایا اے میرے ہَتھ کیہ آیا اے؟ میں سورج دی لوء دے وِچوں اک گلاسی پیتی سی رج کے محنت کیتی سی چانن دے اِک گُھٹ دی خاطر کِنے ای چَن ہَنڈائے نیں فیر وی بُلھ ترہائے نیں خورے زندہ رہن دی کَد تَک چٹی(ٹیکس)بَھرنی پَینی اے جِندڑی ڈردی رہنی اے سچ پُچھو تے کاہدا جیونا مجبوراں لاچاراں دا جگ سرمایے داراں دا میرے خون پسینے دے نال سیٹھاں محل بنائے نیں میں تے ہتھ زخمائے نیں #احمدنعیم_ارشد
ربا مینوں صندل کردے۔ پنجابی شاعری نجمہ مسعود
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ربا مینوں صندل کردے جیڑا میرے نیڑے آوے خوشبو اودھا مقدر کردے ربا مینوں صندل کردے سائے لئی مسافر در در رلدے مینوں گھنی چھاں وانگوں کردے جیڑی لکاندی پردے سب دے مینوں سلکھنی ماں وانگ کردے اپنا پرایا مینوں زخم جو لاوے اودھا کلہاڑا خوشبو نال بھردے جیوندی رھواں تے چھتری سب لئ مرجاواں تے خوشبو کردے نجمہ مسعود🌺
سرحداں نوں نہئی من دے۔ پنجابی نظم۔ نجمہ مسعود
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
سرحداں نوں نہیں َمنّدے پھول نالےخوشبووی سرحداں نوں نہیں مَنّدے ھوا دا تےفلسفہ اے جھونکےسرحداں نوں نہیی مَنّدے فطرت دیفراغی ویکھ، بنیا اےجگ سب لئ اے عالم دے اےنظارے سرحداں نوں نہیں مَنّدے دکھ تے سکھ دوویں ھی اس حیاتی دے زیور جے ھنجو تےھاسے وی سرحداں نوں نہیں مَندّے عشق منہ زورگھوڑا جےچلپئے تےرکدا نہئیں عاشق سارےکملےنےسرحداں نوں نہئیں مَنّدے بنےسُرتےسازسارےاس فطرت دی ھم آہنگی لئی موسیقی دےاےدھارے سرحداں نوں نہئیں مَنّدے پاگل جوانی وانگ مست لہراں بل کھاؤندیاں لہراندیاں دریاواں دے اے دھارے سرحداں نوں نہئیں مَنّدے نجمہ مسعود🌎
ھمارا بچپن۔
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
کیا آپ کو سٹاپو کھیلنا آتا ہے یسو پنجو آتا ہے چڑی اڈی کاں اڈا کبھی کھیلا ہے گرم پٹھو کھیلی ہو کبھی بادشاہ بادشاہ کا وزیر کون، جانتے ہو رسی پھلانگی ہے کبھی کبھی گلی ڈنڈا کھیلے ہو بنٹے (کنچے) کھیلنا آتا ہے نیلی پری آنا، جانتے ہو کوکلا چھپاکی جمعرات آئی اے، کبھی کی ہے باندر کِلا سے واقف ہو بارش کے موسم میں ریت کے ڈھیر سے کبھی گھسیٹتے نیچے آئے ہو کبھی ٹیوب ویل میں ڈبکیاں لگائی ہیں کبھی درخت پر چڑھ کر پکے پکے امرود ڈھونڈھے ہیں کبھی جو درخت کے ساتھ پینگ (جھولا) جھلائی ہے کبھی پنکھے کے سامنے کھڑے ہو کر اااااااااااااااا کیا یے کبھی رضائیوں کی تہہ پر سب سے اوپر چڑھ کر بیٹھ جانا اور خود کو بادشاہ سمجھنا، یہ لطف محسوس کیا ہو کبھی سائیکل کے ٹائر کو اپنی کمر کے گرد گزار کر اسے گول گول گھمایا ہے کبھی برساتی موسم میں اپنے راہ چلتے ایک مینڈک کو پکڑ کر کسی کی قمیص میں ڈالا ہے کبھی بابا دولے شاہ کے چوہوں سے ڈر کر اپنے گھر کے سب سے پچھلے کمرے کی پیٹیوں کے پیچھے یا نیچے چھپے ہو کبھی ٹھپے لگوانے والیوں کو آٹا دے کر ٹھپے لگوائے ہیں کبھی ...
ایک سکول ٹیچر کا خط نجمہ مسعود
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
مائی ڈئیر تاج الدین، سلامِ محٌبت، تمھارا اِملے کی غلطیوں سے بھرپور مراسلہ مِلا، جسے تم بدقسمتی سے "محٌبت نامہ" کہتے ہو ۔ کوئی مسٌرت نہیں ہوئی ۔ یہ خط بھی تمھارا پچھلے خطوط کی طرح بےترتیب اور بےڈھنگا تھا۔ اگر خود صحیح نہیں لکھ سکتے تو کسی سے لِکھوا لیا کرو۔ خط سے آدھی ملاقات ہوتی ہے اور تم سے یہ آدھی ملاقات بھی اِس قدر دردناک ہوتی ہے کہ بس! اور ہاں.... یہ جو تم نے میری شان میں قصیدہ لِکھا ہے ، یہ دراصل قصیدہ نہیں بلکہ ایک فلمی گانا ہے اور تمھارے شاید عِلم میں نہیں کہ فِلم میں یہ گانا ھیرو اپنی ماں کے لئے گاتا ہے ۔ اور سُنو! پان کم کھایا کرو۔ خط میں جگہ جگہ پان کے دھبے صاف نظر آتے ھیں۔ اگر پان نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم خط لکھتے وقت توہاتھ دھوکے بیٹھا کرو۔ اور یہ جو تم نے ملاقات کی خواھِش کا اظِہار انتہائی اِحمقانہ انداز میں کیا ھے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی یتیم بچہ اپنی ظالِم سوتیلی ماں سے ٹوفی کی فرمائش کر رھا ھو، اس یقین کہ ساتھ کہ وہ اِسے نہیں دےگی۔ ایک بات تم سے اور کہنی تھی کہ کم از کم اپنا نام تو صحیح لکھا کرو۔ یہ "تاجو" کیا ھوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی ق...