میری زبان ۔ مصنف نجمہ مسعود

نجمہ مسعود

 

میری پیدائش کی پانچ منٹ ھی گزرے ھوں گے کہ مڈوائف مجھے اپنے کھردرے ہاتھوں میں اٹھا کر تیز بہتے ھوئے پانی کے نل کے نیچے لے گئ اور میری کمر کو رگڑ   رگڑ کر صاف کرنے لگی  ٹھنڈے یخ پانی سے میری سانس رکنے لگی پانی بہت ٹھنڈا ھے میں نے اسے چیخ چیخ کر بتایا مگر اس نے میری ایک  نہ سنی اور   بڑے اطمینان سے مجھے نہلا کر  ایک کپڑے میں لپٹتے ھوئے میری ماں سے کہا یہ لو ماشااللّہ  بہت ھی خوبصورت بچہ ھے میں نے اتنا پیارا بچہ کبھی نہیں دیکھا  میرے گرد لپٹا ھوا کپڑا اتنا سخت تھا کہ میرا  جسم جیسے کسی نے چھیل دیا ھو  میں نے ماں کو  بتایا اس کپڑے کو میرے جسم سے ھٹاؤ  مجھے چبھ رھا ھے مگر اس نے میری ایک نہیں سنی اور  مجھے مڈوائف کے حوالے کرتے ھوئےبولی شکریہ  مڈوائف نے اپنےسخت ھاتھوں  سے مجھے  کپڑے پہنائے  ایک بڑے  سخت کاٹن کے کپڑے میں جکڑ کر میری ماں کی گود میں مجھے ڈال دیا ماں  نے مجھے  بڑے پیار سے اٹھایا سینے سے لگا کر پیار کیا پھر اپنی چھاتی سے دودھ  پلانے لگی  مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرے منہ میں کڑواھٹ انڈیل دی ھو بدزائقہ  ھے میں نے زور زور چلاتے ھوئے کہا مجھے یہ پسند نہیں ھے مگر ماں  تو میری زبان ھی نہیں سمجھ رھی تھی اس نے زبردستی مجھے اپنے ساتھ چپکائے رکھا اور جب تک میں سو نہیں گیا مجھے نہیں چھوڑا  میری پیدائش کے تقر یباً ایک گھنٹے بعد ایک باریش انسان کاندھوں پر سفید رومال ڈالے تشریف لائے یہ امام مسجد تھے انہوں نے بسمہ اللہ پڑھتے ھوئےمجھے اپنے ھاتھوں میں اٹھایا اور  میرے کان کی ایک طرف آذان دینے لگے پھر دوسری طرف آذان دے کر بو لے چلو اب تم مسلمان ھو گئے ھو   مسلمانوں کے گھر جو پیدا ھوا ھوں تو مسلمان ھی ھونا ھے ناں میں نے زور زور سے اونچی آواز میں کہا مگر بزرگوار کو میری بات سمجھ ھی نہیں آئی دوسروں کی طرح انہیں بھی میری زبان سمجھ نہیں آرھی تھی  گھر میں سب خو ش تھے  مبارک باد دینے والوں کا رش لگا ھوا تھا  ھر کوئی میری شکل پر تبصرے کر رھا تھا ناک اور ماتھا  بالکل اپنے باپ پر ھے آنکھیں ھو بہو ماں پر ھیں رنگ زرا دبا سا ھے مگر ابھی چھلے میں ھے ناں چالیس دنوں بعد ھی اصلی شکل نکالے گا ابھی تو کئی رنگ بدلے گا میری دادی یہ کر سب کو مطمئن کر دیتیں میرا سکون اور چین  ختم ھو چکا تھا  ھر کوئی خوش تھا کسی کو میرے  سونے یا جاگنے سے غرض نہیں تھی   میں بار بار کہتا  سب چلے جاؤ مجھے تنہا چھوڑ دو مگر  میری بات کسی کی سمجھ میں ھی نہیں آتی تھی دو دن بعد میرے دادا کے دوست  جو قسمت کا حال بتانے میں بہت ماھر سمجھے جاتے تھے مجھے دیکھنے آئے اور بڑے پیار سے مجھے اٹھایا  بہت سی دعائیں دیتے ھوئے بولے ماتھا بہت روشن ھے   بہت  خوش بخت بچہ ھے اچھے نصیب لے کر آیا ھے بڑا ھو کر بہت کامیابیاں  سمیٹے گا  بہت بڑا  بزنس مین بنے گا کس نے بتایا ھے آپ کو کہ میں بزنس کروں گا میں تو    میو زیشن بنوں  یادگار اور  ابدی دھنیں بناؤں گا میں نےانہیں بتایا مگر انہیں میری زبان سمجھ نہیں آئی    یہاں کوئی بھی میری زبان نہیں سمجھتا

آج میں پچیس سال کا ھو چکا ھوں میری والدہ اللہ کو پیاری ھو چکی ھیں  اور   میں نے والدین  کی خواہش کے مطابق انجئنرنگ مکمل کی تھی مگر  ایک کامیاب  میوزیشن ھوں   نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئیے  مسجد آیا تو آگے بڑھتے ھوئے دادا کے  وھی دوست مل  گئے  بڑی گرمجوشی سے ملے  اور کہنے لگے ماشااللّہ بہت دھوم ھے تمہاری  دھنوں کی میں نے تو  تمھاری پیدائش پرتمھیں دیکھتے ھی  سب کو بتا دیا تھا کہ بہت روشن ماتھے والا بچہ ھے بہت شہرت پائے گا اس کی دُھنیں    دنیا بھر میں گونجیں گی میں نے بھی ان کی اس  بات پر یقین کر کر لیا کیوں کہ میں اب بڑا ھو چکا ھوں اور اُس  دنیا کی زبان بھول چکا ھوں  اور اِس دنیا کی زبان نہ صرف سمجھتا ھوں بلکہ سن کر یقین بھی کرتا ھوں

تبصرے

Top-Notch نے کہا…
Zabardast